Add To collaction

16-Dec-2021 حضرت سلیمان علیہ السلام

حضرت سلیمان علیہ السلام
قسط_نمبر_10
دسواں_حصہ 
بیت الَمَقدِس، یعنی پاک مقدس گھر، مسلمانوں کا قبلۂ اول، حضرت داؤد علیہ السلام نے بیت المقدس کی بنیاد اس شہر میں رکھی کہ جسے بیشتر انبیا کی سر زمین ہونے کا شرف حاصل ہے۔ یروشلم، جو تینوں الہامی مذاہب کے ماننے والوں یعنی عیسائی یہودی اور مسلمانوں کے لیے بے حد قابلِ احترام ہے۔
حضرت داؤد علیہ السلام نے یہاں ۳۳ برس تک نظامِ حکومت سنبھالے رکھا، اگرچہ آپ کا زیادہ تر دور پر آشوب رہا۔ جنگ و جدل کا بازار بھی گرم رہا لیکن ایک فائدہ یہ ہوا کہ اسرائیلی جو تفرقوں میں بٹے، ایک دوسرے کے دشمن ہو رہے تھے۔ بیرونی دشمنوں سے مقابلے کے لیے آپس کے اختلافات بھلا کر متحد ہو گئے۔ حضرت داؤد علیہ السلام کی خواہش تھی کہ ان میں اتحاد و یگانگت بڑھانے کے لیے ایک عظیم الشان عبادت گاہ کا قیام ضروری ہے کہ جہاں یہ تمام اکٹھے عبادت کریں۔ اسرائیلی روایات کے مطابق انھیں خواب میں اشارہ دیا گیا تھا کہ ان کی آرزو ضرور پوری ہو گی لیکن ان کے بیٹے سلیمان کے دورِ حکومت میں، چنانچہ اسی مقام پر جسے حضرت داؤد علیہ السلام منتخب کر گئے تھے۔ تعمیر مسجد کا کام شروع کیا گیا۔
’’ جب سلیمان نے بیت القدس ( مسجد اقصیٰ) بنانے کی تیاری کی تو حیرام بادشاہ صور کو کہلا بھیجا کہ آپ کو معلوم ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کی جو مراد بیت المقدس بنانے کی تھی وہ تو لڑائیوں کے شغل کی وجہ سے پوری نہیں ہونے پائی مگر اب میں چاہتا ہوں کہ اس کو پورا کروں۔ میری قوم میں صیدانیوں کی طرح لکڑی کاٹنے کے کام جاننے والے نہیں ہیں، چنانچہ حیرام نے ایک مردِ عارف بھیجا جو معدنیات کے کام اور نقاشی وغیرہ میں استاد تھا… اور اپنے لڑکوں کو اجازت دی کہ جبل لبنان سے دریا تک ازر اور سرو کی لکڑیاں پہنچا دیں۔ ۴۷ ؎
مدتِ تعمیر میں البتہ اختلاف ہے۔ بعض مقامات پر درج ہے کہ ہیکل کی تعمیر میں تیرہ برس صرف ہوئے۔
قصص القرآن میں عرصہ تعمیر سات سال بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح اس بات میں بھی تضاد پایا جاتا ہے کہ تعمیر میں کتنے نفوس شامل تھے۔ کیا صرف جن میں شامل تھے یا جن و انس دونوں نے اس کی تعمیر میں کام کیا تھا۔ ایک روایت کے مطابق تیس ہزار نفر (جن و انس) اس کام میں مسلسل مصروف رہے تب کہیں جا کر یہ عمارت مکمل ہوئی۔
اسرائیلی روایات کے مطابق دو لاکھ افراد اس کی تعمیر میں مصروف عمل رہے۔ تورات میں کئی مقامات پر ان تعمیری خدمات کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔
’’اور یہی باعث ہے جس سے سلیمان بادشاہ نے لوگوں کی بیگار لی کہ خداوند کا گھر (مسجد اور شہر یروشلم) اور اپنا قصر (قصرِ سلیمان) اور (شہر) ملو اور یروشلم کی شہر پناہ…..اس کے سرداروں کے شہر بنائے اور جو کچھ سلیمان کی تمنا تھی سو یروشلم میں اور لبنان میں اور اپنی مملکت کی ساری زمین میں بنائے‘‘۴۸؎
اس کی مثال یوں لی جا سکتی ہے کہ جیسے برِ صغیر میں مغل بادشاہوں کا دورِ حکومت بڑا شاندار رہا۔ لیکن شاہ جہاں نے فن تعمیر کے حوالے سے بڑا کام کیا اور انجینئر بادشاہ کے لقب سے مشہور ہوا، اسی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام نے فنِ تعمیر میں دلچسپی کے باعث ایسی عظیم الشان عمارات اور شہر تعمیر کیے اور بستیاں بسائیں جو انھی سے مخصوص ہیں۔ صرف بیت المقدس کا ہی تذکرہ کیا جائے تو اس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
بیت المقدّس جو ہیکل سلیمانی کے نام سے مشہور تھا، بائیبل کے مطابق فن تعمیر کا ایسا عظیم الشان شاہکار تھا جسے دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی لیکن اس دنیا کا دستور ہے کہ جو آیا اسے جانا ضرور ہے، جو بنا ہے اسے فنا ہونا ہے۔ بیت المقدس بھی اپنی تمام تر مضبوطی پائداری اور شاہانہ استحکام کے باوجود امتدادِ زمانہ کے ہاتھوں بنتا، بگڑتا، مٹتا اور پھر بنتا رہا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد بنی اسرائیل اپنی پرانی روش پر آ گئے۔ بت پرستی پھر رواج پا گئی اور ساتھ ہی تمام برائیاں بھی عود آئیں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے بیٹے رجعام کی تخت نشینی کو پانچ سال ہوئے تھے کہ شاہِ مصر نے یروشلم پر حملہ کیا اور ہیکل سلیمانی سے تمام نایاب و قیمتی اشیا بھی سمیٹ لے گیا۔ ۷۴۰ قبل مسیح میں پھر ہیکل سلیمانی سے تورات و دیگر صحائف غائب ہوئے۔ ہیکل میں موجود تابوت سکینہ ایسا غائب ہوا کہ جس کا علم آج تک نہ ہو سکا۔ جواہر التفسیر اور دائرۃ المعارف کے مطابق تابوتِ سکینہ اور حضرت موسیٰ کا عصا بحیرہ طبریہ میں ہے اور قیامت کے قریب دونوں کا ظہور ہو گا۔
۵۳۹ قبل مسیح میں شاہ ایران نے فتح کے بعد یہودیوں کو اپنے وطن یروشلم جانے کی اجازت دی تو ہیکل دوبارہ تعمیر کیا گیا لیکن ۶۳ ق۔ م میں روسی شہنشاہ نے شہر پر قبضہ کر کے ہیکل کو پھر تباہ و برباد کر دیا۔ ہیرودِ اعظم کے دور میں بیت المقدس کی عظمت بحال ہوئی۔ ۷۰ء ؁میں اسے آتش زنی سے بہت نقصان پہنچا۔ ۱۳۵ء ؁میں دوبارہ تعمیر کیا گیا لیکن رومی برداشت نہ کر سکے۔ انھوں نے ہل چلوا دیے۔ ۱۳۶ء؁ میں اسے پھر تعمیر کیا گیا۔ اس کی تباہی کے بعد یہاں غلاظت کے سوا کچھ نہ تھا۔
دین اسلام کے ظہور کے بعد حضرت عمر فاروقؓ کے عہد میں اکثر انبیا اسی سرزمین پر مبعوث ہوئے۔ بیت المقدس کے کھنڈرات پر آپ ؓنے ایک سادہ سی مسجد تعمیر کرائی اور وہ مقام تلاش کیے جہاں سے آپﷺ معراج پر تشریف لے گئے تھے اور اپنے ہاتھوں سے صفائی کی۔ حضرت بلالؓ نے اذان دی اور آپؓ نے نماز پڑھائی۔
یہودی، عیسائی اور مسلمان تینوں مذاہب کے لیے اس مقام کی عظمت اور عقیدت ڈھکی چھپی نہیں۔ حضورِ اکرمﷺ نے اس مقام کی فضیلت اس طرح بیان کی ہے کہ مسجد حرام مکہ مکرمہ، مسجدِ نبوی، مدینہ منورہ کے بعد اگر کوئی تیسرا سفرِ زیارت جائز ہے تو وہ مسجد اقصیٰ کا ہے۔ اس مسجد میں ایک نماز ادا کرنے کا ثواب ۲۵ ہزار نمازوں کے برابر قرار دیا گیا ہے۔ مسلمانوں کا قبلۂ اول کہ حضورﷺ ہجرت کے بعد سترہ ماہ تک اسی کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے، امامت کراتے رہے۔ دورانِ نماز ہی، آپ کی خواہش کے مطابق قبلہ کا رخ خانہ کعبہ کی جانب کر دیا گیا۔ معراج کے لیے بھی آپ اسی مقام سے عرشِ بریں پر لے جائے گئے تھے۔ یہیں آپ نے سابقہ انبیائے کرام علیہ السلام کی نماز کی امامت کروائی تھی۔ ہیکل سلیمانی یا بیت المقدس، جِسے مسلمان مسجد اقصیٰ اور حرم شریف کے نام سے اور یہودی بیت اللحم کے نام سے پکارتے ہیں۔ موجودہ تعمیر پانچویں اموی خلیفہ عبد المالک بن مروان نے ۶۹۰ء میں شروع کرائی۔ عموماً مسجد اقصیٰ سے مراد پورا رقبہ حرم لیا جاتا ہے۔ بیت المقدس کے خاص خاص مقامات کا مختصر ذکر تاکہ اندازہ ہو سکے کہ اس مقام کی اہمیت کیا ہے اور حضرت سلیمان علیہ السلام اور ان کے بعد آنے والے ان کے پیروکاروں نے اسے کسی انداز میں تعمیر کیا تھا۔
مسجد اقصیٰ بیت المقدس کے جنوب مشرقی گوشے میں واقع ہے۔ اس کی عمارت بہت وسیع ہے۔ سنگ مر مر سے تعمیر کردہ اس مسجد کے پندرہ دروازے ہیں۔
بیت القدس میں استعمال ہونے والی لکڑیاں کوہِ لبنان پر تراشی جاتیں اور بیت المقدس بھیجی جاتیں۔ سنگ تراش بھی تعمیر کے لیے بڑے بڑے پتھروں کی وہیں تراش خراش کرتے اور پھر شہر لاتے، حضرت سلیمان نے پائداری کے خیال سے بہت گہری بنیادیں کھدوائیں، تمام عمارت میں سنگِ مرمر استعمال کیا، سرو کے شہتیر اور تختے کام میں لائے گئے، دیواروں اور چھتوں کو سونے کی چادروں سے منڈھ دیا گیا۔ ہیکل کے اندرونی حصے کو مقدس کمرہ قرار دیا گیا اور یہاں تابوتِ سکینہ محفوظ کیا گیا، ہیکل کے دروازے پر سونے کی چادریں چڑھا دی گئیں، یہاں بچوں کی معلومات کے لیے ضروری محسوس ہوتا ہے کہ تابوتِ سکینہ کا مختصر تعارف کرا دیا جائے۔
سورہ البقرہ میں بیان ہے ’’ خدا کی طرف سے اس بادشاہ ہو نے کی علامت یہ ہے کہ اس کے عہد میں وہ صندوق تمھیں واپس مل جائے گا، جس میں تمھارے رب کی طرف سے تمھارے سکونِ قلب کا سامان ہے، جس میں آلِ موسیٰ اور آلِ ہارون کے چھوڑے ہوئے تبرکات ہیں اور جس کو فرشتے سنبھالے ہوئے ہیں۔ ‘‘ ۴۹؎
اس کی تفسیر میں سید ابو الاعلٰی مودودی تفہیم القرآن میں رقم طراز ہیں۔
’’ بائبل کا بیان اس باب میں قرآن سے کسی حد تک مختلف ہے۔ تاہم اس سے اصل واقعہ کی تفصیلات پر کافی روشنی پڑتی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ صندوق جسے بنی اسرائیل اصطلاحاً ’’ عید کا صندوق ‘‘ کہتے تھے۔ ایک لڑائی کے موقع پر فلسطینی مشرکین نے اسے بنی اسرائیل سے چھین لیا تھا، لیکن یہ مشرکین کے جس شہر اور جس بستی میں رکھا گیا، وہاں وبائیں پھوٹ پڑیں آخر کار انھوں نے اسے خوف کے مارے ایک بیل گاڑی پر رکھ کر گاڑی کو ہانک دیا، غالباً اسی معاملے کی طرف قرآن ان الفاظ میں اشارہ کرتا ہے کہ اس وقت و ہ صندوق، فرشتوں کی حفاظت میں تھا، کیونکہ کہ وہ گاڑی بغیر کسی گاڑی بان کے ہانک دی گئی تھی اور اللہ کے حکم سے یہ فرشتوں ہی کا کام تھا کہ وہ اسے چلا کر بنی اسرائیل کی طرف لے آئے، رہا یہ ارشاد ’’ اس صندوق میں تمھارے لیے سکونِ قلب کا سامان ہے‘‘ بائبل کے بیان سے اس کی حقیقت یہ معلوم ہوتی ہے کہ بنی اسرائیل اس کو بڑا متبرک اور اپنے لیے فتح و نصرت کا نشان سمجھتے تھے، جب وہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا تو پوری قوم کی ہمت ٹوٹ گئی اور ہر اسرائیلی یہ خیال کرنے لگا کہ خدا کی رحمت ہم سے پھر گئی ہے اور اب ہمارے برے دن آ گئے ہیں۔ پس اس صندوق کا واپس آنا اس قوم کے لیے بڑی تقویتِ قلب کا موجب تھا اور یہ ایک ذریعہ تھا جس سے ان کی ٹوٹی ہوئی ہمتیں پھر بندھ سکتی تھیں۔
’’ آل موسیٰ اور آلِ ہارون کے چھوڑے ہوئے تبرکات‘‘ جو اس صندوق میں رکھے ہوئے تھے ان سے مراد پتھر کی وہ تختیاں ہیں جو طورِ سینا پر اللہ نے حضرت موسیٰ کو دی تھیں، اس کے علاوہ تورات کا اصل نسخہ بھی اس میں تھا جسے حضرت موسیٰ نے خود لکھوا کر بنی لادی کے سپرد کیا تھا۔ نیز ایک بوتل میں من بھر کر اس میں رکھ دیا گیا تھا تا کہ آئندہ نسلیں اللہ کے اس احسان کو یاد کریں جو صحرا میں ان کے باپ دادا پر کیا گیا تھا۔ اور غالباً حضرت موسیٰ کا وہ عصا بھی اس کے اندر تھا جو خدا کے عظیم الشان معجزات کا مظہر تھا۔ ‘‘ ۵۰؎
تابوتِ سکینہ کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ حضرت آدم کے زمانے سے چلا آرہا ہے۔ اس میں تمام پیغمبروں کی شبیہیں اور گھروں کے نمونے تھے۔ حضرت آدم نے حضرت شیث سے نو رِ محمدیﷺ کی حفاظت کے لیے ایک عہد نامہ تحریر کرایا تھا۔ وہ اس میں محفوظ کیا گیا تھا، نسل در نسل ہوتا، ہوتا تابوتِ سکینہ حضرت موسیٰ تک پہنچا، اس میں تبرکات رکھے جاتے، اس میں تورات کی تختیاں، حضرت ہارون کا عمامہ، حضرت موسیٰ کے نعلینِ مبارک اور لباس، من و سلویٰ کے دور کی بچی ہوئی ترنجین، اور چند کلمات موجود تھے جو پریشانی کے عالم میں پڑھے جاتے تھے۔ تین گز طول اور دو گز عرض پر محیط تابوتِ سکینہ کو برکت کے لیے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون دورانِ جنگ آگے رکھتے اور فتح یاب ہوتے، حضرت موسیٰ کی وفات کے بعد بنی اسرائیل کی بد اعمالیوں کے نتیجے میں، یہ صندوق ان سے چھینا گیا، قوم عمالقہ کے قبضے میں تابوت آیا لیکن وہ اس کے اہل نہ تھے۔ بت خانے میں رکھا تو ان کے بت تباہ و برباد ہونے لگے۔ آدمی مرنے لگے، یکے بعد دیگرے پانچ شہر تباہ ہوئے تو خوف زدہ ہو کر بیل گاڑیوں پر لاد کر بیلوں کو ہنکا دیا گیا۔ تابوت حضرت شموئیل تک پہنچا، حضرت سلیمان نے اسے بیت القدس میں اسے نہایت حفاظت سے رکھا، بیت القدس کی تباہی کے دوران میں دوسرے ساز و سامان کے ساتھ اسے بھی لوٹ لیا گیا۔
بیت القدس کے دیگر اہم مقامات کی تفصیل کچھ یوں ہے،
.
قبۃ الصخرہ، خانہ ء کعبہ اور مسجدِ نبوی کے بعد اس زمین پر مسلمانوں کے لیے مقدس تر ین مقام ہے۔ اس چٹانی مقام سے کئی روایات وابستہ ہیں۔
جاری ہے ..
طالب دعا ء
ڈاکٹر عبد العلیم خان
adulnoorkhan@gmail.com

   4
1 Comments

Bht khoob Sir

Reply